Saturday, 31 July 2021

دانائیاں اٹک گئیں لفظوں کے جال میں

 دانائیاں اٹک گئیں لفظوں کے جال میں

اتنے جواب گم ہیں مِرے اک سوال میں

دریا بس اک قدم کبھی ساحل کی سمت آ

دیکھوں گا زور کتنا ہے تیرے ابال میں

کی احتیاط لاکھ مگر حال یہ ہوا

آنا تھا جن کو آ ہی گئے تیری چال میں

جی چاہتا ہے ترکِ محبت کو بار بار

آتا ہے ایک ایسا بھی لمحہ وصال میں

اب کیا اصول دشت نوردی کی بات ہو

الجھے پڑے ہیں پاؤں شکاری کے جال میں


حسنین عاقب

No comments:

Post a Comment