دل توڑتا ہے اور بکھرنے نہیں دیتا
بے رحم مسیحا مجھے مرنے نہیں دیتا
اے جانِ تمنا! تیری زلفوں کا تصور
کاندھوں سے سیہ شال اُترنے نہیں دیتا
چاندی سی وہ رنگت، نہ ستاروں سی وہ آنکھیں
یہ ہجر خد و خال سنورنے نہیں دیتا
رسوائی کا ڈر ہے کہ اندھیروں سے محبت
میں چاند کو آنگن میں اُترنے نہیں دیتا
پھولوں سے بھرا رہتا ہے اُس شخص کا دامن
اوروں کو جو کانٹوں سے گزرنے نہیں دیتا
کیوں سب سے زیادہ نہ کریں فن سے محبت
یہ فن ہی تو فنکار کو مرنے نہیں دیتا
کہتا ہے کہ رُسوا نہ کرو تم مجھے نیر
دیکھو مجھے سچ بات بھی کرنے نہیں دیتا
شہباز نیر
No comments:
Post a Comment