سمے کے ہاتھ لگ جائیں تو سپنے ٹوٹ جاتے ہیں
زیادہ دیر رکھنے سے بھروسے ٹوٹ جاتے ہیں
کہاں تک روک سکتی ہیں کسی انسان کی پلکیں
کہ پانی زور پر آئے تو پشتے ٹوٹ جاتے ہیں
میں خود جاں کے پھپھولے تازہ رکھنے کی سعی میں ہوں
سنا ہے زخم بھر جائیں تو وعدے ٹوٹ جاتے ہیں
محبت اس لیے بھی اپنے ہاں ممنوع ٹھہری ہے
کہ اس نازک کلی سے آبگینے ٹوٹ جاتے ہیں
تعلق باندھنے سے قبل کچھ باتیں سمجھ لیجیے
گرہ گر کھولنی پڑ جا ئے، دھاگے ٹوٹ جاتے ہیں
فقط سالار ہی ضامن نہیں تشکیل لشکر کا
پیادہ بھی اگر چاہے تو دستے ٹوٹ جاتے ہیں
تم آ تے ہو تو کچھ پل ہم بھی خوش رہنے کی کوشش میں
بہت ہنستے ہیں تو اشکوں کے شیشے ٹوٹ جاتے ہیں
اکرام اعظم
No comments:
Post a Comment