Wednesday 28 July 2021

کئی صدیوں سے صحرا کی سلگتی ریت پر تنہا کھڑی

 بنجر زمیں کا خواب


کئی صدیوں سے صحرا کی سلگتی ریت پر 

تنہا کھڑی میں سوچتی ہوں

نہیں کوئی نہیں ہے

نہیں کوئی نہیں ہے جو مِرے اندر بلکتی خامشی کو 

تھپکیاں دے کر سُلا ڈالے

محبت اوک میں بھر کر پلا ڈالے

یہ کیسی بے نیازی ہے

کہ جلتی ایڑیوں کی سسکیاں سن کر بھی بادل چپ رہا ہے

یہ کیسے رت جگے آنکھوں میں اترے ہیں

کہ جن کے سلسلے قرنوں پہ پھیلے ہیں

مگر میں ہجر کے موسم لیے

کب سے

کسی بنجر زمیں کے خواب کا تاوان بھرتی ہوں


ناز بٹ

No comments:

Post a Comment