بنجر زمیں کا خواب
کئی صدیوں سے صحرا کی سلگتی ریت پر
تنہا کھڑی میں سوچتی ہوں
نہیں کوئی نہیں ہے
نہیں کوئی نہیں ہے جو مِرے اندر بلکتی خامشی کو
تھپکیاں دے کر سُلا ڈالے
محبت اوک میں بھر کر پلا ڈالے
یہ کیسی بے نیازی ہے
کہ جلتی ایڑیوں کی سسکیاں سن کر بھی بادل چپ رہا ہے
یہ کیسے رت جگے آنکھوں میں اترے ہیں
کہ جن کے سلسلے قرنوں پہ پھیلے ہیں
مگر میں ہجر کے موسم لیے
کب سے
کسی بنجر زمیں کے خواب کا تاوان بھرتی ہوں
ناز بٹ
No comments:
Post a Comment