Wednesday 28 July 2021

بخت خفتہ نے مجھے روضے پہ جانے نہ دیا

عارفانہ کلام نعتیہ کلام


بختِ خفتہ نے مجھے روضے پہ جانے نہ دیا

چشم و دل سینے کلیجے سے لگانے نہ دیا

آہ قسمت، مجھے دنیا کے غموں نے روکا

ہائے، تقدیر کہ طیبہ مجھے جانے نہ دیا

پاؤں تھک جاتے اگر پاؤں بناتا سر کو

سر کے بل جاتا مگر ضعف نے جانے نہ دیا

سر تو سر، جان سے جانے کی مجھے حسرت ہے

موت نے ہائے مجھے جان سے جانے سے جانے نہ دیا

شربتِ دید نے اور آگ لگا دی دل میں

تپشِ دل کو بڑھایا ہے بجھانے نہ دیا

اب کہاں جائے گا نقشہ تیرا میرے دل سے

تہ میں رکھا ہے اسے دل نے گُمانے نہ دیا

سجدہ کرتا جو مجھے اس کی اجازت ہوتی

کیا کروں اذن مجھے اس کا خدا نے نہ دیا

میرے اعمال کا بدلہ تو جہنم ہی تھا

میں تو جاتا مجھے سرکار نے جانے نہ دیا

میرے اعمالِ سیاہ نے کیا جینا دو بھر

زہر کھاتا تیرے ارشاد نے کھانے نہ دیا

نفسِ بدکار نے دل پر یہ قیامت توڑی

عمل نیک کیا بھی تو چھپانے نہ دیا

اور چمکتی سی غزل کوئی پڑھو اے نوری

رنگ اپنا ابھی جمنے شعراء نے نہ دیا​


نوری بریلوی

مصطفیٰ رضا

No comments:

Post a Comment