چلتا ہوں دوستو! آپ جانب صلیب کی
منصف نے مانگ لی ہے گواہی رقیب کی
چپکے سے چل دیا ہے، بتایا بھی کچھ نہیں
اک بے بسی تھی نظروں میں میرے طبیب کی
وہ ہاتھ کٹ گیا ہے کل آ کر مشین میں
مزدور کی تھیں جس پہ لکیریں نصیب کی
میں پھر سے کہہ رہا ہوں اےشاہا! تُو خیر مانگ
اب تک دبی ہوئی ہے، بغاوت غریب کی
فرزانگی تو مجھ کو ڈراتی رہی بشؔر
میرے جنوں نے میری یہ منزل قریب کی
علی بشر
No comments:
Post a Comment