Thursday, 29 July 2021

یوں بھی شب فراق سزا کاٹتے رہے

یوں بھی شبِ فراق سزا کاٹتے رہے

لکھ لکھ کے خط پہ ان کا پتہ کاٹتے رہے

اہلِ ہوس نے کاٹ لی سونے کی کھیتیاں

خود دار لوگ فصلِ انا کاٹتے رہے

جو جس کے تھا نصیب میں لے کر چلا گیا

قسطوں میں اپنے بھائی گلا کاٹتے رہے

جن کو پیامِ امن سے پرخاش تھی بہت

وہ پر کبوتروں کے سدا کاٹتے رہے

طوفاں کا زور کم ہوا لہریں بھی تھم گئیں

دریاؤں میں سفینے ہوا کاٹتے رہے

ہر گام پر تھا ماں کی دُعاؤں کا آسرا

دُشمن ہزار دستِ دُعا کاٹتے رہے

ثروت کسی مقام پہ کھائی نہیں شکست

رستہ سفر میں راہنما کاٹتے رہے


ثروت زیدی بھوپالی

No comments:

Post a Comment