Thursday, 29 July 2021

اف وہ اک حرف تمنا جو ہمارے دل میں تھا

 اف وہ اک حرف تمنا جو ہمارے دل میں تھا

ایک طوفاں تھا کہ برسوں حسرت ساحل میں تھا

رفتہ رفتہ ہر تماشا آنسوؤں میں ڈھل گیا

جانے کیا آنکھوں نے دیکھا اور کیا منزل میں تھا

داستان غم سے لاکھوں داستانیں بن گئی

پھر بھی وہ اک راز سر بستہ رہا جو دل میں تھا

چشم ساقی کے علاوہ جام خالی کے سوا

کون اپنا آشنا اغیار کی محفل میں تھا

میرے ارمانوں کا مرکز میرے دردوں کا علاج

ٹمٹماتا سا دیا اک گوشۂ منزل میں تھا

گفتگو کے ختم ہو جانے پر آیا یہ خیال

جو زباں تک آ نہیں پایا وہی تو دل میں تھا

مٹ گئیں امروز و فردا کی ہزاروں الجھنیں

جو سکوں طوفاں میں پایا ہے وہ کب ساحل میں تھا


علی جواد زیدی

No comments:

Post a Comment