غم کا بھیڑیا نِگل نہ جائے
درد حدوں سے نکل نہ جائے
دل کی شیریں تنہا رہ گئی
ہجر کا تیشہ چل نہ جائے
جا کے کوئی زنجیر ہِلاؤ
دل مُنصف کا بدل نہ جائے
اتنا یقیں نہ کسی پہ کرنا
برف کا وعدہ پِگھل نہ جائے
بے خبروں کو اتنی خبر دو
چُھپنے سے کبھی اجل نہ جائے
نظروں میں سدا حیا کو رکھنا
سر سے آنچل پِھسل نہ جائے
دل کو اپنے صاف ہی رکھنا
شک کا پودا پھل نہ جائے
جو کہنا ہے کہہ بھی دو اَب
شام سُہانی ڈھل نہ جائے
مولا باطن روشن رکھنا
اصل سے خانم نکل نہ جائے
فریدہ خانم
No comments:
Post a Comment