تلخیٔ نو شکر آمیز ہوئی جاتی ہے
زندگی اور دلآویز ہوئی جاتی ہے
کس نے لفظوں پہ یہ چپکے سے کمندیں پھینکیں
جو زباں ہے وہ کم آمیز ہوئی جاتی ہے
دستِ قاتل میں نظر آتی ہے اک شاخِ گلاب
زندگی پھر بھی تو خونْریز ہوئی جاتی ہے
محمل وقت میں روشن ہیں فراست کے چراغ
پھر بھی اوہام کی لو تیز ہوئی جاتی ہے
جب سے گلفام نگارش ہوئے غالب کے خطوط
شاخِ تحریر بھی گلریز ہوئی جاتی ہے
تشنگی بن کے چھلک جائیں نہ الفاظ کہیں
گفتگو ہونٹوں پہ لبریز ہوئی جاتی ہے
اب دھندلکوں کے سہارے ہیں غنیمت مطرب
روشنی فطرت چنگیز ہوئی جاتی ہے
مطرب نظامی
No comments:
Post a Comment