ہم تری راہ میں مٹ جائیں گے سوچا ہے یہی
درد مندانِ محبت کا طریقا ہے یہی
آپ ہوں پیش نظر روح جو تن سے نکلے
اے مِری جان مِری آنکھوں کی تمنا ہے یہی
ہو گیا عام محبت کا میری افسانہ
اب تو جس بزم میں جا بیٹھے چرچا ہے یہی
کوچۂ یار میں کھو جانے کو ہم آئے ہیں
راستہ مرحلۂ عشق کا سیدھا ہے یہی
دل میں اللہ کا گھر آنکھوں میں حضرت کا جمال
میرا کعبہ ہے یہی میرا مدینہ ہے یہی
بحرِ ذخّارِ محبت کی نہیں ملتی تھاہ
جس میں ہم ڈوبنے والے ہیں وہ دریا ہے یہی
غور سے قطرے کی جانب جو نظر کی تو کُھلا
ہم اسے قطرہ غلط سمجھے تھے دریا ہے یہی
ہے توّکل مجھے اللہ پر اپنے اکبر
جس کو کہتے ہیں بھروسہ وہ بھروسا ہے یہی
شاہ اکبر داناپوری
No comments:
Post a Comment