دل پریشان آنکھ پُر نم ہے
روبرو ہجرتوں کا موسم ہے
تو مِرے پاس ہے مگر پھر بھی
ایسا لگتا ہے کوئی شے کم ہے
میں تِرے بعد جی نہیں سکتا
اور یہ میرا آخری غم ہے
اے خدا خیر ہو چراغوں کی
آندھیوں کا گروہ برہم ہے
کوئی مرتا نہیں کسی کے لیے
سچ کہوں تیری بات میں دم ہے
زخمِ دل کا علاج ہے ان میں
تیری آنکھیں نہیں ہیں مرہم ہے
دائرہ وار گھومتا ہوں میں
اور ہر دائرہ منظم ہے
تو مِرِی آستین سے نہ لپٹ
اس میں شیرینیاں نہیں سَم ہے
عثمان ناظر
No comments:
Post a Comment