نہ جانے کیسے مٹے گی یہ آپسی رنجش
ہمارے گھر میں چلی آئی باہری رنجش
ہزاروں سائے تو اک پیڑ کے نہیں ہوتے
مِری تو فہم سے باہر ہے مسلکی رنجش
سبھی کی ایک ہی منزل ہے آؤ مل کے چلیں
فنا نصیبو! کہاں تک یہ باہمی رنجش؟
نہیں ہے بندہ و معبود میں کوئی دوری
اگر نہ بیچ میں حائل ہوں بے تکی رنجش
وہ جن کو حکم تھا رسّی کو تھام کر رکھنا
انہیں کے بیچ پنپتی ہے لازمی رنجش
سکوتِ شب میں یہ کتبوں کے ٹوٹنے کی صدا
تہِ زمین بھی ہوتی ہے دنیوی رنجش
حجابِ چشم ہٹے گا تو سب عیاں ہو گا
ضرر رساں تھی کہ تھی کتنی قیمتی رنجش
ثمر یہ سوچ کے حیرت میں ڈوب جاتا ہوں
مسافرانِ فنا میں ہے دائمی رنجش
ثمریاب ثمر
ثمر سہارنپوری
No comments:
Post a Comment