یہ عشق اگر ایسا پُر اسرار نہ ہوتا
منصور کبھی کوئی سر دار نہ ہوتا
زنجیر زنی ہوتی نہ ہر سانس میں میری
دل درد کا ایسے جو علمدار نہ ہوتا
پھر چاند نہیں کرتا کبھی اشک فشانی
گر ٹُوٹے ستاروں کا عزادار نہ ہوتا
کچھ رشتوں کو میں ساتھ کبھی رکھ نہیں پاتی
مجھ میں جو اگر کوئی اداکار نہ ہوتا
اس دل میں تِرا عکس فروزاں نہیں رہتا
گر شیشہ مِرے دل کا چمکدار نہ ہوتا
میں خود کو کئی بار بنا لیتی ابھی تک
گر لمس مجھے تیرا یہ درکار نہ ہوتا
گر اس پہ تِرا بھید کُھلا ہوتا اے ساقی
پھر شیخ کو میخانے سے انکار نہ ہوتا
پھر خاک مزہ دیتا برستا ہوا ساون
اس رُت میں اگر ہجر کا آزار نہ ہوتا
صد شکر کہ عیبوں پہ مِرے پردہ پڑا ہے
کیا ہوتا اگر میرا وہ ستار نہ ہوتا
ہر چند کہ پتھر ہوں مگر ٹُوٹ رہی ہوں
اے کاش تُو پتھر کا طلبگار نہ ہوتا
جینا قریشی
No comments:
Post a Comment