صحبتِ شب کا طلبگار نہ ہو گا کوئی
خوف اتنا ہے کہ بیدار نہ ہو گا کوئی
دھوپ ہر سمت سے نکلی تو کہاں جاؤ گے
دشت میں سایۂ دیوار نہ ہو گا کوئی
حرفِ احساس بھی جل جائے گا ہونٹوں کی طرح
مُدعا قابلِ اظہار نہ ہو گا کوئی
میں کہ پروردۂ صحرا ہوں بکوں گا کیسے
دیکھ لینا کہ خریدار نہ ہو گا کوئی
کچھ تو ہے جس کی تپش زیر و زبر کرتی ہے
یوں ہی رُسوا سر بازار نہ ہو گا کوئی
سارے عالم کو تجسس ہے نئی سمتوں کا
کیسے غالب کا طرفدار نہ ہو گا کوئی
کس کو یہ عہد جنوں سونپ کے جاؤں نامی
جانتا ہوں کہ سزاوار نہ ہو گا کوئی
نامی انصاری
No comments:
Post a Comment