چہرہ، حلیہ، حال پرانا پڑ جاتا ہے
اپنے گھر میں نام بتانا پڑ جاتا ہے
اک تیزی منزل سے آگے لے جاتی ہے
پھر سے دنیا گھوم کے آنا پڑ جاتا ہے
کچھ قبروں کو پھول ترستے رہ جاتے ہیں
کچھ خوابوں کو روز بھلانا پڑ جاتا ہے
نام کمانا تو پھر بھی آساں لگتا ہے
مت پوچھو جب رزق کمانا پڑ جاتا ہے
علی ادراک
No comments:
Post a Comment