راستہ روکے ہے دل پھر بھی ادھر جانا ہے
رات کرتی ہے تقاضہ؛ چلو، گھر جانا ہے
ہم بھی دیکھیں گے کسک دل میں رہے گی کب تک
دل کے زخموں کو کسی روز تو بھر جانا ہے
اب تو لینا ہیں یہ سانسیں بھی تِری ہی خاطر
اور تِرے ساتھ ہی اک دن مجھے مر جانا ہے
شعر کہتے ہیں کسے، کس کو غزل کہتے ہیں
ہم نے لفظوں کی سجاوٹ کو ہنر جانا ہے
ساحلوں پر جو کھڑے ہیں وہ تماشائی ہیں
اپنی کشتی لیے دریا میں اتر جانا ہے
زندگی میں جو مکمل ہے وہی ہے ثابت
اور جو ٹوٹ گیا اس کو بکھر جانا ہے
کون سنتا ہے یہاں درد کی آواز قمر
مجھ کو کہنا نہیں کچھ یوں ہی گزر جانا ہے
قمر سرور
No comments:
Post a Comment