Monday, 26 July 2021

نظم کا آخری ٹھکانہ وہ مجھے لے جاتی ہے

 نظم کا آخری ٹھکانہ


وہ مجھے لے جاتی ہے

مکانوں کی پیچھے متوازی چلتی ہوئی

لمبی گلیوں کو کاٹتی پگڈنڈیوں پہ

شارٹ کٹ کا بہانہ کر کے

وہ مجھے لے جاتی ہے

پرندوں سے ڈرے ہوئے کھیتوں میں

اور بازو پھیلا کے کھڑا کر دیتی ہے

وہ میرے صبر کا امتحان لیتی ہے

کڑی دوپہر کی خاموشی کے سائے میں

میں اسے ڈھونڈتا ہوں

ہر شام کو

تنہا کبوتر کی نامکمل پرواز میں

ایک دن مجھے

تمہارے قدموں کی آواز میں

اس کے وجود کا احساس ہوا

اس روز میں دیر تک

انتظار کی کھونٹی پہ لٹکا رہا

اور بے آواز قدموں سے

اس کا شکار کرنے کی ناکام کوشش کرتا رہا

کبھی کبھی وہ ایمبولینس کے بجتے سائرن سے

نکل کر میرے کانوں پہ آ بیٹھتی ہے

میں نے اسے ہسپتالوں میں

بھٹکتے ہوئے دیکھا ہے

میں نے اسے جھانکتے دیکھا ہے

سالہا سال پرانے بوسیدہ خطوں کے

مٹتے ہوئے لفظوں کی اداس آنکھوں سے

ایک مرتبہ میں نے اسے

ایک کتاب میں پڑے

مور کے پر کے ہمراہ پایا

اب میں حیران نہیں ہوتا

اس کی گمشدگی پہ

کہ اس دائمی ساتھ کی خوشبو

ہر مرتبہ اس کو میرے پاس کھینچ لاتی ہے

دل کا خالی صفحہ بھرنے لگتا ہے


ثاقب ندیم

No comments:

Post a Comment