نظم کا آخری ٹھکانہ
وہ مجھے لے جاتی ہے
مکانوں کی پیچھے متوازی چلتی ہوئی
لمبی گلیوں کو کاٹتی پگڈنڈیوں پہ
شارٹ کٹ کا بہانہ کر کے
وہ مجھے لے جاتی ہے
پرندوں سے ڈرے ہوئے کھیتوں میں
اور بازو پھیلا کے کھڑا کر دیتی ہے
وہ میرے صبر کا امتحان لیتی ہے
کڑی دوپہر کی خاموشی کے سائے میں
میں اسے ڈھونڈتا ہوں
ہر شام کو
تنہا کبوتر کی نامکمل پرواز میں
ایک دن مجھے
تمہارے قدموں کی آواز میں
اس کے وجود کا احساس ہوا
اس روز میں دیر تک
انتظار کی کھونٹی پہ لٹکا رہا
اور بے آواز قدموں سے
اس کا شکار کرنے کی ناکام کوشش کرتا رہا
کبھی کبھی وہ ایمبولینس کے بجتے سائرن سے
نکل کر میرے کانوں پہ آ بیٹھتی ہے
میں نے اسے ہسپتالوں میں
بھٹکتے ہوئے دیکھا ہے
میں نے اسے جھانکتے دیکھا ہے
سالہا سال پرانے بوسیدہ خطوں کے
مٹتے ہوئے لفظوں کی اداس آنکھوں سے
ایک مرتبہ میں نے اسے
ایک کتاب میں پڑے
مور کے پر کے ہمراہ پایا
اب میں حیران نہیں ہوتا
اس کی گمشدگی پہ
کہ اس دائمی ساتھ کی خوشبو
ہر مرتبہ اس کو میرے پاس کھینچ لاتی ہے
دل کا خالی صفحہ بھرنے لگتا ہے
ثاقب ندیم
No comments:
Post a Comment