Monday 26 July 2021

جب سے تیری یاد پتھر ہو گئی

 جب سے تیری یاد پتھر ہو گئی

ہو گئی برباد، پتھر ہو گئی

بے خبر میرے تجھے اس بار میں

کرتے کرتے یاد پتھر ہو گئی

عرش کی جانب چلی تھی اور پھر

میری ہر فریاد پتھر ہو گئی

بہہ نہیں پائی تمہاری آنکھ کیوں

کیوں مِری روداد پتھر ہو گئی

ہائے دل نگری کی قسمت کیا کہوں

ہو کے جو آباد پتھر ہو گئی

حوصلے اتنے مِرے نازک نہ تھے

پڑ گئی افتاد پتھر ہو گئی

اب مجھے حیرت نہیں ہوتی سنو

میں تمہارے بعد پتھر ہو گئی

منجمد تھا وہ غزل سن کر مِری

اور ساری داد پتھر ہو گئی


فوزیہ رباب

No comments:

Post a Comment