تجھ خد و خال میں اوجھل ہی نہ ہو جاؤں میں
یوں نہ مل مجھ سے مکمل ہی نہ ہو جاؤں میں
میں تِرے بعد اکیلے میں بہت بولتا ہوں
بات کر مجھ سے کہ پاگل ہی نہ ہو جاؤں میں
اب تو حیوان بھی مجھ باغ تک آنے لگے ہیں
ان پہ قدغن ہو کہ جنگل ہی نہ ہو جاؤں میں
سائباں سا وہ مجھے باندھے ہوئے رکھتی ہے
اس کو یہ شک ہے کہ بادل ہی نہ ہو جاؤں میں
رائیگانی میں بدل جائے نہ قربانی بھی
یوں نہ باندھو مجھے گھائل ہی نہ ہو جاؤں میں
سبزۂ نرم ہوں آہستہ قدم رکھ مجھ پر
انتقاماً کہیں دلدل ہی نہ ہو جاؤں میں
آج اگر خوش ہوں تو آ بخت بدل لےمجھ سے
کل پہ مت ٹال کہ بے کل ہی نہ ہو جاؤں میں
جل سے جلتا ہوں کہ پہچان مِرا مسئلہ ہے
یعنی تھل سے کہیں جل تھل ہی نہ ہو جاؤں میں
اتنی عجلت میں نہ کھولو مِری گرہیں شاہد
یعنی کچھ اور مقفّل ہی نہ ہو جاؤں میں
شاہد ذکی
No comments:
Post a Comment