اس کے باغ بدن کو دیکھتے ہیں
اک چمن در چمن کو دیکھتے ہیں
پھول پتے ہیں شاخساروں پر
ہم گلاب اور سمن کو دیکھتے ہیں
نقرئی لوح پر نقوشِ بہار
خالقِ کُل کے فن کو دیکھتے ہیں
اک کلی جو شگفتنی ہے ہنوز
ایک غُنچہ دہن کو دیکھتے ہیں
اور کچھ دیکھنے کی چاہ نہیں
آپ کے بانکپن کو دیکھتے ہیں
عالمِ وجد میں ہیں حرف و بیاں
ان کے طرزِ سخن کو دیکھتے ہیں
ذوالفقار تابش
No comments:
Post a Comment