تم جس طرف چلو گے ادھر کام آئے گا
رات آئی تو چراغِ نظر کام آئے گا
مت کاٹئے کہ دھوپ کا موسم قریب ہے
سایہ سکون دے گا شجر کام آئے گا
تم آنسوؤں کی روشنی رکھنا سنبھال کر
تاریکیوں میں دیدۂ تر کام آئے گا
ہونے لگی ہیں شہر میں ہجرت کی آہٹیں
مت بیچئے کہ گاؤں کا گھر کام آئے گا
ہم سے بھی آگے چلنے لگے دل کے وسوسے
کچھ دور تک اگر وہ مگر کام آئے گا
میں تو میرے جنوں میں بھٹکتی رہی سرور
کس کو پتہ تھا شوقِ سفر کام آئے گا
قمر سرور
No comments:
Post a Comment