وہ غم شناس لوگوں پہ کرتا یقیں اگر
اس کے یقیں کو آخری شب تک سنبھالتے
اپنی انا کی موج میں ہے وہ اور ایک ہم
پھرتے ہیں اس کے عہد کو اب تک سنبھالتے
سب خواہشات مار کے بس اک تِری طلب
لایا ہوں دل کی غار سے لب تک سنبھالتے
آخر کو ہم سے چھوٹ ہی جانا تھا اس کا ہاتھ
ہم ناسپاس لوگ تھے کب تک سنبھالتے
حسنین آفندی
No comments:
Post a Comment