Sunday, 25 July 2021

وہ غم شناس لوگوں پہ کرتا یقیں اگر

 وہ غم شناس لوگوں پہ کرتا یقیں اگر

اس کے یقیں کو آخری شب تک سنبھالتے 

اپنی انا کی موج میں ہے وہ اور ایک ہم

پھرتے ہیں اس کے عہد کو اب تک سنبھالتے

سب خواہشات مار کے بس اک تِری طلب

لایا ہوں دل کی غار سے لب تک سنبھالتے 

آخر کو ہم سے چھوٹ ہی جانا تھا اس کا ہاتھ

ہم ناسپاس لوگ تھے کب تک سنبھالتے


حسنین آفندی

No comments:

Post a Comment