محبتوں میں اداس ہو کر رہا نہ جائے
اداس موسم کا تذکرہ بهی کیا نہ جائے
ملو تو ایسے کہ آئینہ آیئنے سے جیسے
دلوں میں رنجش یا بغض رکھ کر ملا نہ جائے
میں چاہتی ہوں بغیر میرے نہ ره سکے تو
میں چاہتی بغیر تیرے رہا نہ جائے
خیال رکھیے سفر میں اپنے بهی ہمسفر کا
قدم سے آگے قدم بڑها کر چلا نہ جائے
جو لفظ مجھ میں تڑپ رہے ہیں وه کیا کرینگے
کسی برے کو اگر برا بھی کہا نہ جائے
گل افشاں
No comments:
Post a Comment