Sunday, 25 July 2021

اک طاق میں ہوں جیسے رکھا ہوا اکیلا

 اک طاق میں ہوں جیسے رکھا ہوا اکیلا

جلتا ہوا اکیلا،۔ بجھتا ہوا اکیلا

کب تک کرے گا مجھ میں آباد اک جہاں کو

شاخوں میں اک پرندہ بیٹھا ہوا اکیلا

بڑھتا رہا میں آگے ہٹتا رہا میں پیچھے

دن بھر یوں ہی ہوا سے لڑتا ہوا اکیلا

آنکھوں سے اس کی ٹپکا کب تک وہاں میں رہتا

بن جاؤں گا سمندر بہتا ہوا اکیلا

ورنہ طبیب سارے مشکل میں پڑ گئے تھے

احباب سے بچا تو اچھا ہوا اکیلا

یہ عشق ہے سمندر پھیلا ہوا جہاں میں

مجھ سا ہے اک مسافر بھٹکا ہوا اکیلا

دریا سے مل کے دریا بنتا رہا ہے قطرہ

آنکھوں سے گر کے آنسو تارا ہوا اکیلا

کھڑکی سے میں نے باہر دیکھا ہے اک مسافر

دہلیز پر وہ بیٹھا بھیگا ہوا اکیلا


سعید اشعر

No comments:

Post a Comment