لگائیں آگ ہی دل میں کہ کچھ اجالا ہو
کسی بہانے تو اس گھر کا بول بالا ہو
نمودِ صبح کو کیسے کرے جہاں تسلیم
کوئی کرن ہو، کہیں نام کو اجالا ہو
نہ تم ملے نہ یہ دنیائے غم ہی راس آئی
تم ہی بتاؤ کہ اس غم کا کیا ازالہ ہو؟
عجب عجب سی ہیں افواہیں گرم زِنداں میں
عجب نہیں کہ اسی شب یہاں اجالا ہو
پھر اس کی بات کا کیسے یقین آ جائے
وہ جس کی بات کا انداز ہی نرالا ہو
کشاں کشاں ہی چلو یہ روِش ہی بہتر ہے
کہیں نہ ذکر ہو اپنا نہ کچھ حوالہ ہو
وجد چغتائی
No comments:
Post a Comment