سجا رہے گا اندھیروں سے ہی کھنڈر میرا
اک ایک کر کے ہوا ختم اب سفر میرا
مِرا مزاج، مِرا طرزِ زندگی ہے جدا
نہ ہو سکے گا مِرے گھر میں بھی گزر میرا
جو کام آ سکے لے جا مِرے عزیز ابھی
یہ تیرے سامنے حاضر ہے آج سر میرا
قلم اٹھاؤں کہ بچوں کی زندگی دیکھوں
پڑا ہوا ہے دوراہے پہ اب ہنر میرا
ہے خشک پتوں کی مانند زندگی عاجز
نہ خاندان ہے کوئی نہ کوئی گھر میرا
لئیق عاجز
No comments:
Post a Comment