خوشی میں غم ملا لیتے ہیں تھوڑا
یہ سرمایہ بڑھا لیتے ہیں تھوڑا
نظر آتے ہیں جب اطراف چھوٹے
ہم اپنا قد گھٹا لیتے ہیں تھوڑا
ہے اندر روشنی، باہر اندھیرا
سو دونوں کو ملا لیتے ہیں تھوڑا
بہت بے ربط ہے اندر کی دنیا
چلو پردہ اٹھا لیتے ہیں تھوڑا
بہت سا خرچ ہو جاتا ہے ایماں
مگر پھر بھی بچا لیتے ہیں تھوڑا
یہ چہرے دل کے باشندے ہیں صاحب
یہ نذرانہ جدا لیتے ہیں تھوڑا
سنو دنیا کے نقشے سے کسی دن
سمندر کو ہٹا لیتے ہیں تھوڑا
دو عالم آگ بن جاتے ہیں جب بھی
ہم اشکوں سے بجھا لیتے ہیں تھوڑا
شعیب نظام
No comments:
Post a Comment