Monday, 26 July 2021

خوشی میں غم ملا لیتے ہیں تھوڑا

 خوشی میں غم ملا لیتے ہیں تھوڑا

یہ سرمایہ بڑھا لیتے ہیں تھوڑا

نظر آتے ہیں جب اطراف چھوٹے

ہم اپنا قد گھٹا لیتے ہیں تھوڑا

ہے اندر روشنی، باہر اندھیرا

سو دونوں کو ملا لیتے ہیں تھوڑا

بہت بے ربط ہے اندر کی دنیا

چلو پردہ اٹھا لیتے ہیں تھوڑا

بہت سا خرچ ہو جاتا ہے ایماں

مگر پھر بھی بچا لیتے ہیں تھوڑا

یہ چہرے دل کے باشندے ہیں صاحب

یہ نذرانہ جدا لیتے ہیں تھوڑا

سنو دنیا کے نقشے سے کسی دن

سمندر کو ہٹا لیتے ہیں تھوڑا

دو عالم آگ بن جاتے ہیں جب بھی

ہم اشکوں سے بجھا لیتے ہیں تھوڑا


شعیب نظام

No comments:

Post a Comment