Monday 26 July 2021

دل تھا بے کیف محبت کی خطا سے پہلے

 دل تھا بے کیف محبت کی خطا سے پہلے

لطف ایسا نہیں آیا تھا سزا سے پہلے

ہائے انداز محبت بھی عجب تھا ان کا

کر رہے تھے وہ جفا مجھ پہ وفا سے پہلے

کس قدر تیری دعاؤں میں اثر تھا اے دوست

ہو گیا ہوں میں صحت یاب دوا سے پہلے

کیا بتاؤں تجھے ہمدم کہ تھا ابتر کتنا

حال میرا تِرے دامن کی ہوا سے پہلے

بات یہ میری ذرا غور سے سن لو دانش

کام کرنا نہ کوئی نام خدا سے پہلے


دانش فراہی

No comments:

Post a Comment