کسی کے نام کے کوئی گلاب بیچتا ہے
کہیں پہ کوئی محبت کے باب بیچتا ہے
ہم اس کے شہر میں آئے تو ہم پہ راز کھلا
یہاں تو شہر کا ہر شخص خواب بیچتا ہے
تو اپنے دین کو روزی بنا کے پھرتا ہے
خدا کا قہر گناہ و ثواب بیچتا ہے
گلے لگانے سے دل کا بھی دل دھڑک اٹھا
یہ مے کدہ ہے جو آنکھوں کا آب بیچتا ہے
کسی کو وہ بھی تو اک پھول دینا چاہتا ہے
گلی میں آ کے جو تازہ گلاب بیچتا ہے
بشریٰ بختیار
No comments:
Post a Comment