Monday 26 July 2021

کسی کے نام کے کوئی گلاب بیچتا ہے

 کسی کے نام کے کوئی گلاب بیچتا ہے

کہیں پہ کوئی محبت کے باب بیچتا ہے

ہم اس کے شہر میں آئے تو ہم پہ راز کھلا

یہاں تو شہر کا ہر شخص خواب بیچتا ہے

تو اپنے دین کو روزی بنا کے پھرتا ہے

خدا کا قہر گناہ و ثواب بیچتا ہے

گلے لگانے سے دل کا بھی دل دھڑک اٹھا

یہ مے کدہ ہے جو آنکھوں کا آب بیچتا ہے

کسی کو وہ بھی تو اک پھول دینا چاہتا ہے

گلی میں آ کے جو تازہ گلاب بیچتا ہے


بشریٰ بختیار

No comments:

Post a Comment