اس شہرِ ستم گر کی کیا خوب علامت ہے
پھولوں پہ ہے پابندی خوشبو کی تجارت ہے
حاکم بھی یہاں جھوٹا، منصف بھی بِکاؤ ہے
رشوت کا چلن ہر سُو اور جُھوٹی عدالت ہے
مظلوم کو پھانسی ہے، ظالم کی رہائی ہے
مقتول تہِ ذِلت،۔ قاتل پہ عنایت ہے
مولا یاں رحم کرنا، یہ کیسا سماں آیا
مسلم کے تئیں اب یاں، ہر دل میں عداوت ہے
اے ارضِ وطن تجھ کو سینچا تھا لہو دے کر
کیا میرے لہو کی بس اتنی سی ہی قیمت ہے
کیا سوچا ثمر تُو نے، اس دیس کے بارے میں
جس دیس میں الفت کا، بدلہ ہی عداوت ہے
ثمریاب ثمر
ثمر سہارنپوری
No comments:
Post a Comment