سخن کا پیرہن پہنا دیا کس نے خموشی کو
ترستی ہے زباں گونگے دلوں کی گرمجوشی کو
ہوئے آرائشِ جاں کی بدولت کو بہ کو رسوا
کہ عریانی سمجھتے ہیں ہم اپنی جامہ پوشی کو
جب اپنا دم گھٹا ہر دم فصیلِ شہر کے اندر
نکل آئے ہیں صحراؤں میں ہم خانہ بدوشی کو
شریکِ جرم بھی اپنا نہیں اپنے سوا کوئی
تو پھر کیوں کر برا کہئے خود اپنی چشم پوشی کو
مہک اٹھے گی تنہائی گئے لمحوں کی خوشبو سے
مری خلوت میں جب آئیں گے کانٹے گل فروشی کو
برستے آنسوؤں سے بھیگتی پلکوں سے آ بیٹھے
ستاروں کی گھنی چھاؤں میں شغل ِ بادہ نوشی کو
غزل جب محفلِ یاراں کے گل پرخار ہو جائیں
دعائیں دوستوں کو دیں کہ اپنی سخت کوشی کو
سارا غزل
No comments:
Post a Comment