شرط خاموشی سے ہارے وہ بھی
میں نہ بولوں تو پکارے وہ بھی
خوشدلی سے کوئی جا کر کہہ دو
کچھ نہ کچھ نذر گزارے وہ بھی
جن سے تھی راہِ تعلق روشن
ڈوبنے کو ہیں ستارے وہ بھی
میں بھی یہ خاک لبادہ تج دوں
جسم ملبوس اتارے وہ بھی
جو کبھی جان سے بڑھ کر تھا عزیز
بارِ خاطر ہوا بارے وہ بھی
تھا جو مواج سمندر کا حریف
لگ گیا آج کنارے وہ بھی
آسرا جن کو نہیں ہے تجھ سے
ڈھونڈ لیتے ہیں سہارے وہ بھی
سراج اجملی
No comments:
Post a Comment