Monday, 26 July 2021

قفس رنگ سے نکلے تو کدھر جائیں گے

 قفسِ رنگ سے نکلے تو کدھر جائیں گے

ہم پریشانِ نظر اور بکھر جائیں گے

شعلۂ وقت سے ہر شمع کو ملتی ہے چمک

محفلِ دل کے مقدر بھی سنور جائیں گے

کہیں ملتا ہی نہیں بحرِ جنوں کا ساحل

صورتِ موجِ بلا خیز گزر جائیں گے

وحشتیں خاک بسر دل کے بیابانوں میں

آج کچھ اپنی سی دیوانے بھی کر جائیں گے

آبلہ پائی کوئی پاؤں کی زنجیر نہیں

وادئ خار میں بے خوف اتر جائیں گے

ظلمتِ خواب میں بھٹکے ہوئے راہی آخر

منزلِ نور کے سینے میں اتر جائیں گے

چھیڑ کر دیکھ کبھی سازِ تمنائے بہار

دامنِ گوش گلِ نغمہ سے بھر جائیں گے

بے حجاب آئے جو ہم دشت میں چاند اترے گا

خلوتِ یار کے آئینے نکھر جائیں گے

سینۂ سنگ کی بے نور فضاؤں میں غزل

مشعلِ شوق سے ہم لے کے شرر جائیں گے


سارا غزل

No comments:

Post a Comment