Sunday, 25 July 2021

سانسوں کی روانی میں خلل آنے لگا ہے

 سانسوں کی روانی میں خلل آنے لگا ہے 

ٹھہرو کہ بچھڑ جانے کا پل آنے لگا ہے 

کہتے ہو تو لہجے کی کمر سیدھی نہ کر لوں 

مانا کہ مِرے عجز پہ پھل آنے لگا ہے 

یہ کیا کہ ہر اک وقت کی بیزار سماعت 

ہر لفظ کی پیشانی پہ بل آنے لگا ہے

لاؤ مِری آواز کی دستار اٹھا کر

کم ظرف کوئی حد سے نکل آنے لگا ہے

لو ختم ہوئی عمر مہ و سال کی گنتی 

تمہید تھی جس کی وہی کل آنے لگا ہے 


بابر علی اسد

No comments:

Post a Comment