خود نمائی عمر بھر کا قہر ہے
میرے ہونٹوں پر سخن کا زہر ہے
دل دھڑکتا ہے مِرے کانوں کے پاس
اور خوابیدہ یہ سارا شہر ہے
ان کھلی آنکھوں کی پنہائی میں آج
منظرِ عقدہ کشائے دہر ہے
دھوپ بھی کجلا گئی ہے آنچ سے
کس قدر بھڑکا مزاجِ دہر ہے
ولولے جاگے کہ آئے زلزلے
پھر تہہ و بالا یہ دل کا شہر ہے
کون ہے جس کو نہ لے ڈوبی غزل
بے اماں دل کی یہ چڑھتی لہر ہے
سارا غزل
No comments:
Post a Comment