Tuesday 27 July 2021

خود نمائی عمر بھر کا قہر ہے

 خود نمائی عمر بھر کا قہر ہے

میرے ہونٹوں پر سخن کا زہر ہے

دل دھڑکتا ہے مِرے کانوں کے پاس

اور خوابیدہ یہ سارا شہر ہے

ان کھلی آنکھوں کی پنہائی میں آج

منظرِ عقدہ کشائے دہر ہے

دھوپ بھی کجلا گئی ہے آنچ سے

کس قدر بھڑکا مزاجِ دہر ہے

ولولے جاگے کہ آئے زلزلے

پھر تہہ و بالا یہ دل کا شہر ہے

کون ہے جس کو نہ لے ڈوبی غزل

بے اماں دل کی یہ چڑھتی لہر ہے


سارا غزل

No comments:

Post a Comment