سہمے تخیّلات کو اذنِ بیان دے
شعروں میں درد ڈھال زمینوں کو جان دے
اپنے مقام و منصب و منشور کو سمجھ
تھوڑا سا اس طرف بھی مِری جاں دھیان دے
سستا سمجھ کے چھوڑ دیا جائے گا تجھے
بہتر ہے اپنی ذات کو تھوڑا سا مان دے
جینے کا حق تو دے مجھے میری زمین پر
میں کب یہ چاہتا ہوں مجھے آسمان دے
لہروں سے کھیلنے کا سلیقہ نہیں تجھے
ممکن نہیں ہے گہرا سمندر امان دے
ساحل پہ رہ کے ہاتھ ہلانے سے فائدہ
تیور ہوا کے شوخ ہوئے، بادبان دے
کر ڈالے تار تار سیاہی کا پیرہن
مرغِ سحر سے کہنا کہ للہ اذان دے
ایسا نہیں کہ تجھ سے محبت نہیں رہی
لیکن یہ کیا کہ تیرے لیے کوئی جان دے
عثمان ناظر
No comments:
Post a Comment