خود کو سمجھا لو
سنو جاناں
مجھے تم سے بس
ایک بات کہنی ہے
اور وہ بات تم کو یاد رکھنی ہے
کہ تم خوابوں میں میرے
اس طرح نہیں آیا کرو
تمہارے یوں چلے آنے سے
ہوتا ہے یہ
کہ میرے خواب سارے
ٹوٹ جاتے ہیں
اور نیند آنکھوں سے
میری پھر روٹھ جاتی ہے
اور میرے دل کے شوالے میں
وہ پجارن جاگ جاتی ہے
جو تمہارے پیار کے
چرنوں کی داسی تھی
پھر پجارن ایک کہانی کہہ سناتی ہے
ہاں گلابی رنگ برساتی کہانی
یاد ہے تم کو
جس کی رنگیں مسکراتی ساعتیں
ہمراز تھیں اپنی
وہ افسانہ بھی تم کو یاد تو ہو گا
جسے ہم خود ادھورا چھوڑ کر بچھڑے
اس افسانے کو دہراتے ہوئے
میرے دل کے پرانے زخم
سارے کھلتے جاتے ہیں
اور آنکھیں بھیگتی جاتی ہیں
خود بخود میری
پھر تم اپنا ہاتھ شانے پر میرے
دھیرج رکھ کے مجھ سے کہتے ہو
خود کو سمجھا لو
اپنے دل کو بہلا لو
مگر میں کیا کروں
مجھے خود کو سمجھانا نہیں آتا
دل کو بہلانا نہیں آتا
اس لیے جاناں
کہا ہے یہ تمہیں میں نے
کہ ٹوٹے خواب چُننے میں
بہت ہی دیر لگتی ہے
اور پُجارن کو منانے میں
میں خود بھی ٹُوٹ جاتی ہوں
زائرہ عابدی
No comments:
Post a Comment