اب آ گئی ہے ذرا آب و تاب آنکھوں میں
بسا ہے یوں تِرا عکس شباب آنکھوں میں
بہ شکلِ دریا نظر آ رہا ہے صحرا بھی
رواں ہی رہتی ہے موجِ سراب آنکھوں میں
کہا تو تھا نہ نظر بھر کے دیکھ دُنیا کو
اُتر گیا ہے نا آخر عذاب آنکھوں میں
تری نگاہ کی مستی بھی خوب مستی ہے
کہ جیسے رقص کناں ہو شراب آنکھوں میں
زبان کھولنا محفل میں ہو محال اگر
مِرے سوال کا دے دے جواب آنکھوں میں
حقیقتوں نے ہر امید کو فسانہ کیا
بہت سجائے تھے ہم نے بھی خواب آنکھوں میں
زباں سے سننے کی حاجت نہیں ہے عابد کو
کھلی ہے آپ کے دل کی کتاب آنکھوں میں
افتخار عابد
No comments:
Post a Comment