اک طائر خضر کہیں رستہ بدل گیا
صحرائے فکر تیرا نصیبہ بدل گیا
ملنے لگی عجیب سی تعبیر بھیک میں
لگتا ہے خواب کا کوئی کاسہ بدل گیا
اظہار کرتے دل کی خموشی ذرا بتا
بدلا ہے غم کہ غم کا مداوا بدل گیا؟
میں ساحلِ گماں کی زباں سیکھتا مگر
دریائے مُمکنات کا لہجہ بدل گیا
صیقل گری کمال کی اک عکس گُل نے کی
آئینۂ چمن کا سراپا بدل گیا
رُخصت ملی تو تحفے میں خیاط تشنگی
آسودگی کے تن کا لبادہ بدل گیا
لگنے لگی ہے پھر سے مجھے اجنبی زمیں
لگتا ہے پھر سے میرا ستارہ بدل گیا
محمد افتخارالحق سماج
No comments:
Post a Comment