Tuesday 27 July 2021

عیش ہی عیش ہے نہ سب غم ہے

 عیش ہی عیش ہے نہ سب غم ہے

زندگی اک حسین سنگم ہے

جام میں ہے جو مشعلِ گلرنگ

تیری آنکھوں کا عکسِ مبہم ہے

اے غمِ دہر کے گرفتارو

عیش بھی سرنوشتِ آدم ہے

نوکِ مژگاں پہ یاد کا آنسو

موسمِ گل کی سرد شبنم ہے

دردِ دل میں کمی ہوئی ہے کہیں

تم نے پوچھا تو کہہ دیا؛ کم ہے

مٹتی جاتی ہے، بنتی جاتی ہے

زندگی کا عجیب عالم ہے

اک ذرا مسکرا کے بھی دیکھیں

غم تو یہ روز روز کا غم ہے

پوچھنے والے شکریہ تیرا

درد تو اب بھی ہے مگر کم ہے

کہہ رہا تھا میں اپنا افسانہ

کیوں تِرا دامنِ مژہ نم ہے

غم کی تاریکیوں میں اے زیدی

روشنی وہ بھی ہے جو مدھم ہے


علی جواد زیدی

No comments:

Post a Comment