Monday, 26 July 2021

خبر مجھے بھی نہیں ہے سخن شناس مرے

 خبر مجھے بھی نہیں ہے سخن شناس مِرے

گزر رہے ہیں شب و روز کیوں اداس مرے

لکھا ہوا ہے سیاحت کے باب میں مجھ کو

فراغتوں میں وہ پڑھتا ہے اقتباس مرے

لُبھا گیا اسے اجماعِ دولت و شہرت

اٹھائے رہ گئے سب مخلصی قیاس مرے

اسے بھی یونہی مِری یاد آنے لگتی ہے

اسے بھی راہ میں ہوتے ہیں التباس مرے

میں اس کو دیکھ سکوں گا نہ مل سکوں گا کبھی

تمام عمر رہے گا وہ آس پاس مرے


رفاقت راضی

No comments:

Post a Comment