گر ہو ہمت تو راستہ نہیں کچھ
بیچ میں ہے جو فاصلہ نہیں کچھ
یعنی بس اس کو دیکھتا ہوں میں
یعنی اب اور دیکھتا نہیں کچھ
کیسے دریا تھے میرے اندر بھی
اب تو بس ریت کے سوا نہیں کچھ
کیا سمجھتا ہے تجھ سے مانگوں گا
میں خدا سے بھی مانگتا نہیں کچھ
ایسی خاموش ہے فضا ساری
جس طرح شہر میں ہوا نہیں کچھ
جو میسر نہیں ہے اس کی طلب
جو میسر ہے وہ ہوا نہیں کچھ
اٹھ گیا ہے سبھی سے میرا یقیں
اب تمہارا بھی آسرا نہیں کچھ
مصلحت یا منافقت ہے حنیف
دیکھتا ہے یہ بولتا نہیں کچھ
محمد حنیف
No comments:
Post a Comment