Wednesday 28 July 2021

گر ہو ہمت تو راستہ نہیں کچھ

 گر ہو ہمت تو راستہ نہیں کچھ

بیچ میں ہے جو فاصلہ نہیں کچھ

یعنی بس اس کو دیکھتا ہوں میں

یعنی اب اور دیکھتا نہیں کچھ

کیسے دریا تھے میرے اندر بھی

اب تو بس ریت کے سوا نہیں کچھ

کیا سمجھتا ہے تجھ سے مانگوں گا

میں خدا سے بھی مانگتا نہیں کچھ

ایسی خاموش ہے فضا ساری

جس طرح شہر میں ہوا نہیں کچھ

جو میسر نہیں ہے اس کی طلب

جو میسر ہے وہ ہوا نہیں کچھ

اٹھ گیا ہے سبھی سے میرا یقیں

اب تمہارا بھی آسرا نہیں کچھ

مصلحت یا منافقت ہے حنیف

دیکھتا ہے یہ بولتا نہیں کچھ


محمد حنیف

No comments:

Post a Comment