شہر غفلت کے مکیں ویسے تو کب جاگتے ہیں
ایک اندیشۂ شبخوں ہے کہ سب جاگتے ہیں
شاید اب ختم ہوا چاہتا ہے عہدِ سکوت
حرفِ اعجاز کی تاثیر سے لب جاگتے ہیں
راہ گم کردۂ منزل ہیں کہ منزل کا سراغ
کچھ ستارے جو سر قریۂ شب جاگتے ہیں
عکس ان آنکھوں سے وہ محو ہوئے جو اب تک
خواب کی مثل پسِ چشمِ طلب جاگتے ہیں
حرف خفتہ کی طرح چشم تغافل کے بھی
بعض اوقات تو مفہوم عجب جاگتے ہیں
سہم جاتے ہیں منڈیروں پہ کبوتر سید
راستے بیڑیوں کی چاپ سے جب جاگتے ہیں
ستار سید
No comments:
Post a Comment