Monday, 26 July 2021

شہر غفلت کے مکیں ویسے تو کب جاگتے ہیں

 شہر غفلت کے مکیں ویسے تو کب جاگتے ہیں

ایک اندیشۂ شبخوں ہے کہ سب جاگتے ہیں

شاید اب ختم ہوا چاہتا ہے عہدِ سکوت

حرفِ اعجاز کی تاثیر سے لب جاگتے ہیں

راہ گم کردۂ منزل ہیں کہ منزل کا سراغ

کچھ ستارے جو سر قریۂ شب جاگتے ہیں

عکس ان آنکھوں سے وہ محو ہوئے جو اب تک

خواب کی مثل پسِ چشمِ طلب جاگتے ہیں

حرف خفتہ کی طرح چشم تغافل کے بھی

بعض اوقات تو مفہوم عجب جاگتے ہیں

سہم جاتے ہیں منڈیروں پہ کبوتر سید

راستے بیڑیوں کی چاپ سے جب جاگتے ہیں


ستار سید

No comments:

Post a Comment