ہمزاد
سکھی! مزار کے حجرے میں کیا جھانک رہی ہے
تُو بھی وہ دیکھے گی جو میں نے دیکھا ہے؟
وہی تنفس، سرپٹ گھوڑے ہانپے والے
ہولے ہولے کانپنے والے
حجرے کی دیوار پہ جب دو سائے ایک بنیں گے
کھڑکی کے پٹ تھرائیں گے
صحن میں برگد، گھڑا، چراغ بھی شرمائیں گے
آنکھیں میچ کے طوفانوں کو چکمہ دے کر بھاگ سکے گی؟
کیا تُو خوف میں جاگ سکے گی؟
برگد پھر بانہیں پھیلا کر سینہ کھولے گا
اور دھیرے سے تیرے کان میں چپ رہنے کو بولے گا
چپ ہو گی تو صبح سویرے برگد سے اک لاش ملے گی
جس کی نیلی رُت حُجرے کا راز رکھے گی
برگد کو ملزم کہہ دے گی
اور وہ شاخ ہلا کر جُرم قبولے گا
کالی بھیدوں والی رات
تیرا نیلا جسم نگل کر سو جائے گی
سکھی یہاں پر دیکھنے والے بھوت پریت کہلاتے ہیں
سکھی تجھے جینا ہے
آ جا ہم دونوں گھر جاتے ہیں
شمامہ افق
No comments:
Post a Comment