Tuesday, 27 July 2021

ہمارے درد کی جانب اشارہ کرتی ہیں

 ہمارے درد کی جانب اشارا کرتی ہیں

فقط کہانیاں ہم کو گوارا کرتی ہیں

یہ سادگی یہ نجابت جو عیب ہیں میرے

سنا تھا ان پہ تو نسلیں گزارا کرتی ہیں

خود اپنے سامنے ڈٹ جاتی ہیں جو شخصیتیں

وہ جیتتی ہیں کسی سے نہ ہارا کرتی ہیں

شریف لوگ کہ جیسے سکوتِ آبِ رواں

کچھ ایک موجیں مگر سر ابھارا کرتی ہیں

بدل گئے ہیں ارادے تو حسرتوں میں مگر

کچھ آرزوئیں ابھی استخارا کرتی ہیں

ستارے ان کی چمک میں سمانا چاہتے ہیں

مگر وہ آنکھیں فلک کو ستارا کرتی ہیں

بجا ہیں اپنے مسائل بجا ہیں اپنی حدود

کہیں کناروں سے لہریں کنارا کرتی ہیں

زبانِ شہر تو پیوندِ خاکِ جہل ہوئی

مگر وہ محفلیں اب بھی پکارا کرتی ہیں


شہپر رسول

No comments:

Post a Comment