لب ہلے، خوف سے توبہ کی صدا پھوٹ پڑی
ہم خدا بھول چکے تھے کہ وبا پھوٹ پڑی
صرف اک دانۂ گندم سے خدا نے روکا
اور اس خاک کے پتلے سے خطا پھوٹ پڑی
آپ کا ساتھ اندھیرے میں بڑی نعمت ہے
کتنے متروک چراغوں سے ضیا پھوٹ پڑی
عشق نے دشت سے ہجرت کا ابھی سوچا تھا
دفعتاً ریت کے ذروں سے وفا پھوٹ پڑی
میں نے جانے کے لیے بیگ اٹھایا ساجد
ماں کے ہونٹوں سے حفاظت کی دعا پھوٹ پڑی
لطیف ساجد
No comments:
Post a Comment