Wednesday, 28 July 2021

عاشق جو اس گلی کا بھی مر کر چلا گیا

 عاشق جو اس گلی کا بھی مر کر چلا گیا

دنیا سے ایک اور قلندر چلا گیا

غربت کا اپنے حال تجھے اور کیا کہوں

اک دن تو اک فقیر بھی اٹھ کر چلا گیا

فرعون اپنے دور کا زندہ ہے آج بھی

دنیا سمجھ رہی تھی ستم گر چلا گیا

چاقو پہ ہے نشان کسی بے گناہ کا

قاتل تو ہاتھ میں لیے خنجر چلا گیا

وہ تنکا جوڑ کر کے نشیمن جو تھا بنا

بستی کی آگ میں وہ مِرا گھر چلا گیا

امید کر چکا تھا نئے سال سے بہت

اک اور زخم دے کے دسمبر چلا گیا

لیلیٰ سے جو ملا تھا وہ پتھر لیے ہوئے

جانباز اپنے شہر سے باہر چلا گیا


خان جانباز

No comments:

Post a Comment