دلوں میں خشک سالی ہو گئی ہے
محبت بھی سوالی ہو گئی ہے
کسی کے ہاتھ پیلے کیا ہوئے ہیں
مِری تقدیر کالی ہو گئی ہے
مزاجاً بھی قلندر ہو گیا ہوں
طبیعت بھی دھمالی ہو گئی ہے
دلوں کے رابطے ٹوٹے ہیں جب سے
غزل جذبوں سے خالی ہو گئی ہے
فقط یہ سوچ کر سب خط جلائے
کہ اب وہ بچوں والی ہو گئی ہے
مسلسل درد سے شہباز نیر
مسلسل بے خیالی ہو گئی ہے
شہباز نیر
بہت محبت میری غزل کو پذیرائی بخشی
ReplyDeleteشہباز جی آپ کو اپنے بلاگ پر خوش آمدید کہتا ہوں
Delete