خوشبو نکل پڑی ہے کھُلے سر، یہ کیا ہُوا
فصلِ جنوں کی خیر، کوئی حادثہ ہوا
اک آرزو سے کم نہیں ہر ماہ وش، مگر
مل جائے جس کرن کو دریچہ کھُلا ہوا
آباد تھا یہ دل تو نہ مہماں ہُوا کوئی
آواز دے رہے ہیں غزالانِ آرزو
صحرائے بازگشت سے کوئی رِہا ہوا
راہیؔ مِرے مزاج میں وحشت سی آ گئی
جب اک غزالِ چشم سے کچھ سلسلہ ہوا
راہی معصوم رضا
No comments:
Post a Comment