Monday 26 September 2016

خوشبو نکل پڑی ہے کھلے سر یہ کیا ہوا

خوشبو نکل پڑی ہے کھُلے سر، یہ کیا ہُوا
فصلِ جنوں کی خیر، کوئی حادثہ ہوا
اک آرزو سے کم نہیں ہر ماہ وش، مگر
مل جائے جس کرن کو دریچہ کھُلا ہوا
آباد تھا یہ دل تو نہ مہماں ہُوا کوئی
ویران ہو گیا ہے تو اک راستہ ہوا
آواز دے رہے ہیں غزالانِ آرزو
صحرائے بازگشت سے کوئی رِہا ہوا
راہیؔ مِرے مزاج میں وحشت سی آ گئی
جب اک غزالِ چشم سے کچھ سلسلہ ہوا

راہی معصوم رضا

No comments:

Post a Comment