Tuesday 20 September 2016

پھر بھی کم تھا گرچہ تیری ذات سے پایا بہت

پھر بھی کم تھا گرچہ تیری ذات سے پایا بہت
تُو ہُوا رخصت تو دل کو یہ خیال آیا بہت
سِیم و زر کیا شے ہے یہ لعل و گہر کیا چیز ہیں
آنکھ بِینا ہو تو علم و فن کا سرمایا بہت
کیا خبر کیا بات اس کے کفر میں پوشیدہ تھی
ایک کافر کیوں حرم والوں کو یاد آیا بہت
گھر سے اک ویرانیٔ دل لے کے نکلا تھا مگر
کارواں یادوں کے میں دل میں بسا لایا بہت
دیر ہی کی روشنی میرے لئے کافی نہ تھی
میں حرم کا نور بھی دل میں بسا لایا بہت
اس جگہ کھونے کا، پانے کا عجب مفہوم ہے
ہم نے آ کر جس جگہ کھویا بہت، پایا بہت
ہاۓ وہ ہر لمحہ تجھ کو دیکھنے کی آرزو
دل مگر اس آرزو پر آج پچھتایا بہت
یوں تو اے آزادؔ تیرے شعر کے سو رنگ ہیں
مجھ کو لیکن یہ تِرا لہجہ پسند آیا بہت

جگن ناتھ آزاد

No comments:

Post a Comment