Friday 30 September 2016

میں ایک شام جو روشن دیا اٹھا لایا

میں ایک شام جو روشن دِیا اٹھا لایا
تمام شہر کہیں سے ہوا اٹھا لایا
یہ لوگ دَنگ تھے پہلی کہانیاں سن کر
میں ایک اور نیا واقعہ اٹھا لایا
طلِسمِ شام پھیلتا تھا گلیوں میں
کوئی چراغ، کوئی آئینہ اٹھا لایا
تمام رات ستاروں سے بات ہوتی رہی
جب ایک چراغ بجھا، دوسرا اٹھا لایا
بھلا یہ کون سی تعبیر جی رہے ہیں ہم
ہمارا خواب ہمیں کس جگہ اٹھا لایا
میں اس کے پاس گیا اور ہمکلام ہوا
جو درمیاں تھا وہ فاصلہ اٹھا لایا
اب اس سے آگے بنائیں گے راستہ کوئی
یہاں تک تو ہمیں راستہ اٹھا لایا
میں زندگی کے مراحل سے جب گزر آیا
تو وقت اور نیا مرحلہ اٹھا لایا

احمد رضوان

No comments:

Post a Comment